برطانیہ میں بچوں کو مادری زبان سیکھانا نقصان کا سودا نہیں

برطانیہ کی نیو کیسل یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر میگی ٹالرمین کا کہنا ہے کہ بنی نوع انسان واحد مخلوق ہے جو قوت گفتار رکھتے ہیں اور یہ بات اس کو دیگر جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔
بات کرنے کی صلاحیت انسان کے ارتقائی عمل میں ایک اہم مرحلہ تصور کیا جاتا ہے، ایک ایسی تبدیلی جس نے پورا کھیل ہی بدل کے رکھ دیا اور پروفیسر رابڑ فولی کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں اپنے آپ کو سمجھنا ہے تو ہمیں زبان کو سمجھنا ہو گا۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی میں انسانی ارتقا اور انتھروپولوجی کے پروفیسر رابرٹ فولی کا کہنا ہے کہ زبان ان چند پیچیدہ چیزوں میں شامل ہے جو ہمیں انسان بناتی ہیں_

faisal
یصل جاوید خیآل

جدید تحقیق میں آیا ہے وہ لوگ واقعتا ذہین ہوتے ہیں جن کی زبان وسیع ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل کریں تو دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔ ہر زبان کسی ایک بات، احساسات کی اچھی طرح وضاحت نہیں کر پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ جب ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہیں تو وہ ترجمہ پوری طرح ہماری بات کا مطلب نہیں دے پاتا۔ اس لیے ہم اکثر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے سوچتے یا کہتے ہیں کہ ذرا مشکل بات ہے۔ اس کا تجزیہ ہم یوں کر سکتے ہیں کہ جس خطے سے ہمارا تعلق ہے وہاں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں مثال کے طور پر جس گھر میں پیدا ہوتے ہیں اس گھر کی ایک زبان ہوتی ہے جو کے کشمیری، پنجابی، سندھی، سرائیکی، ہندکو، پشتو وغیرہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ مگر جب آپ سکول میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو اردو زبان سیکھنی پڑتی ہے کیونکہ وہ آپ کے ملک کی قومی زبان ہے۔ پھر اس کے بعد کیونکہ آپ کا تعلق جس مذہب سے ہے۔ اس کی کتاب عربی زبان میں ہے اور اسے سمجھنے کے لئے اور اپنے مذہب کو بہتر سمجھنے کے لئے عربی زبان بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اور چونکہ انگریزی زبان اب بین الاقوامی سطح پر رابطے کی زبان بن چکی ہے تو ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔ اب جب کہ ہم اتنی زبانوں میں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ سیکھتے ہیں یا نہیں یہ علیحدہ بات ہے مگر ہم اس بات کا اندازہ اندیشہ لگا سکتے ہیں۔ کہ جب ہم کوئی بات جو ہم ایک زبان میں اچھے طریقے سے سمجھا سکتے ہیں وہی بات ہم کسی دوسری زبان میں اس طرح سے اپنا پیغام سامنے والے تک نہیں پہنچا سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے ہمارے زہن کے خانے کھلتے ہیں اُن لوگوں کے مقابلے جو محض ایک ہی زبان بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ مختلف زبانیں بولنا یا سمجھنا زہن کی ورزش ہے۔ اور یہ ورزش یقینی طور پر دوسرے علوم کو سمجھنے کے لئے ہمارے ذہن کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ انسانی ذہن تقریبا تین سو سال کی لگاتار ویڈیو ریکارڈنگ اپنے ذہن میں محفوظ کر سکتا ہے۔ یعنی انسانی ذہن میں اتنی صلاحیت موجود ہے۔ مگر دوسری جانب یہ بات بھی تحقیق سے ثابت ہے کہ ایک انسان تمام عمر اپنے ذہن کا چند فیصد حصہ ہی استعمال کر پاتا ہے۔ اب ذہین انسان بمقابلہ عام انسان اپنا ذہن کا چند فیصد زیادہ استعمال کرتا ہے اور ذہین کہلاتا ہے۔ یعنی عام انسان کے مقابلے ذہین انسان کے ذہن کی ورزش نسبتا زیادہ ہے۔ لہذا ذہن کی نگہداشت کے لئے اس سے مناسب کوئی اور ورزش ہو ہی نہیں سکتی کہ انسان اپنے زہن کی بہتر نشونما کے لیے مختلف زبانیں سیکھنے کی کوشش کرے۔
اسی لیے فطری طور پر وہ لوگ جن کی زبان وسیع و عریض ہے جس میں سب احساسات، تصورات اور خیالات کے وضاحت کے لئے دوسری زبانوں کے مقابلے زیادہ موثر انداز سے وضاحت کی صلاحیت موجود ہے اُن زبانوں کے بولنے والے نسبتا ذہین ہوتے ہیں۔
جب میں نے ریڈیو پروگرام کرنا شروع کیے تو تب میں نے اپنے منٹور ، ریڈیو مینیجر اور استاد ڈاکٹر کیلی سے کہا کیوں کہ میری دلچسپی شاعری میں ہے اور اردو زبان میری پہلی زبان نہیں۔ میں نے سیکھی ہے۔ لہذا بولنے میں میری زبان کتابی ہے جو شاید برطانوی سامعین کو سمجھنے میں مشکل درپیش آئے، لہذا میں اپنے پروگرام میں اپنی زبان میں انگریزی شامل کرکے اور اسے مزید سادہ کر کے پیش کروں گا۔ جس پر ڈاکٹر کیلے نے خوبصورت ردعمل دیا کہ ہمارے برطانیہ میں موجود ہندوستانی، پاکستانی ریڈیو کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے آباؤاجداد کی زبان سے منسلک رکھیں ۔ اور اگر آپ اپنی زبان کو مزید سادہ کر دیں گے تو پھر ہمارا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ میں اپنی جگہ سوچتا ہوں، برطانوی زندگی میں مختلف تنظیموں کا حصہ رہا بھی ہو اور حصہ ہوں بھی اور میری ہمیشہ کوشش یہی رہی ہے کہ ہمارے بچے چائے برطانیہ میں پروان چڑہیں مگر اپنے آباؤاجداد کی زبان سے جڑے رہیں۔
برطانیہ میں رہتے ہوئے ہم اکثر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچے انگریزی بولتے ہیں یا پھر صرف انگریزی ہی بولتے ہیں۔اب چونکہ پوری دنیا میں انگریزی رابطے کی زبان ہے تو انہیں کوئی اور دوسری زبان سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جہاں جائیں گے کمیونیکیٹ کر لیں گے یا دنیا کے سارے علوم انگریزی میں موجود ہیں۔ مگر یہاں بات صرف کمیونیکیشن کی حد تک کی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ بچوں کے ذہن کی بہتر نگہداشت کے لئے انگریزی کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان بھی ضرور سکھائیں جانی چاہیے۔ جس کے دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ آپ کا بچہ انگریزی تو سیکھے گا ہی سیکھے گا ساتھ ساتھ آپ کی مادری زبان بھی سیکھ جائے گا اور بچے کے لیے اس میں فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذہن کی بہتر نگہداشت ہوگی اور اس کی بنیاد پر وہ دوسرے علوم پر بھی غالب آسکتا ہے۔ لہذا اگر کسی اور وجہ سے نا سہی تو اپنے بچے کے ذہن کی بہتر نشوونما کے لئے ہی سہی بچے کو اپنی مادری زبان سکھائیں۔ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ مادری زبان بھی سکھانا یقینا نقصان کا سودا نہیں۔ بلکے یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ ٹول بغیر کسی لاگت کے ہمارے گھر میں میسر ہے۔ اور اہم بات کہ جو قومیں اپنی زبان کو اپنی نسلوں میں منتقل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اُن کو وجود پھر شائد ہی محفوظ رہتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں